Wednesday, June 7, 2017

Weekly News from Attock City and Tehsil Hazro, (Punjab) Pakistan. Updated from Hong Kong.

Weekly News from Attock City and Tehsil Hazro, (Punjab) Pakistan. Updated from Hong Kong.



اٹک سٹی: محمد شہباز شریف کی جانب سے صوبہ بھر کے عوام کو اربوں روپے کا تاریخی رمضان پیکج دیا گیا ہے؛ شیخ آفتاب احمد 
وفاقی وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد نے کہا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف کی جانب سے صوبہ بھر کے عوام کو اربوں روپے کا تاریخی رمضان پیکج دیا گیا ہے اس میں دس اور بیس کلو آٹے کے تھیلے اور دیگر اشیائے خوردونوش ،پر نو ارب روپے کی سبسڈی دی گئی ہے، انہوں نے کہا کہ اشیائے خوردونو ش کی رعایتی نرخوں پر فراہمی کے لیے صوبہ بھر میں تین سو اٹھارہ رمضان بازار قائم کیے گئے ہیں اس کے علاوہ صوبہ بھر میں تین سو اٹھارہ فیئر پرائس شاپس بھی قائم کی گئی ہیں جہاں سے دال چنا، بیسن ،کیلا ، سیب اور کھجور رعایتی نرخوں پر دستیاب ہیں چینی آٹھ روپے فی کلو گرام اور گھی دس روپے فیل کلو گرام مارکیٹ سے کم نرخوں پر دستیاب ہیں اس کے علاوہ چکن دس روپے فی کلو گرام اور انڈے فی درجن پانچ روپے فی درجن کم قیمت پر فروخت کیے جائیں گے رمضان بازاروں میں دس کلو گرام آٹے کا تھیلا دوسو پچاس اور بیس کلو گرام آٹے کا تھیلا پانچ سو روپے میں دستیاب ہوگا انہوں نے کہا کہ مخیر حضرات کے تعاون سے صوبے بھر میں دو ہزار سے زائد مدنی دسترخوان قائم کیے گئے ہیں وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد نے کہا کہ ضلع اٹک میں چھ رمضان بازار قائم کیے گئے ہیں اس کے علاوہ فیئر پرائس شاپس کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے ضلع بھرمیں افطار دستر خوان اور مدنی دستر خوان بھی قائم کیے گئے ہیں رمضان بازاروں کی مانیٹرنگ کے لیے تحصیل و ضلعی سطح پر کنٹرول رومز بھی قائم کیے گئے ہیں جہاں سے ضلع بھر کے رمضان بازاروں کی مانیٹرنگ کی جارہی ہے ضلعی پولیس اٹک کے تعاون سے ضلع بھر کے رمضان بازاروں کو فول پروف سیکورٹی بھی فراہم کی گئی ہے اور تمام بازاروں میں میٹل ڈیٹکٹر ز اور واک تھرو گیٹس بھی نصب کیے گئے ہیں اس کے علاوہ سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے ہر آنے جانے واکے شخص پر کڑی نظر رکھی جارہی ہے انہوں نے کہا کہ ضلع بھر کے رمضان بازاروں کے لیے اے ڈی سی جی کو فوکل پرسن نامز د کیا گیا ہے جو اپنی ذمہ داریاں نبھارہے ہیں اس کے علاوہ ضلع بھر کے اسسٹنٹ کمشنرز ، اور میونسپل کمیٹیوں کے چیئرمین اور چیف افسران کے تعاون سے لگائے گئے رمضان بازار کامیابی سے جاری ہیں حکومت پنجاب نے اس سلسلے میں عوام کی سہولت کے لیے ٹول فری نمبر بھی جاری کیا ہے جو 0800-02345ہے اس نمبر پر کسی بھی وقت معلومات کے لیے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ 

اٹک سٹی:جے یو آئی عام انتخابات قبل از وقت اور بعد از وقت دونوں کی مخالف ہے؛مولانا محمد امجد خان جے یو آئی
جے یو آئی عام انتخابات قبل از وقت اور بعد از وقت دونوں کی مخالف ہے ‘عام انتخابات اپنی مدت پو ری ہو نے پر ہی ہو نے چا ہیے، ان خیالات کااظہار قائم مقام مر کزی سیکر ٹری جنرل جے یو آئی مو لانا محمد امجد خان نے دورہ اٹک کے موقع پرمیڈیا سے بات چیت کر تے ہوئے کیا اس موقع پر ضلعی امیر جے یو آئی مولانا شیر زمان، ضلعی امیر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت قاضی ثاقب الحسینی، مولانا عطاء الحق ، قاری طارق محمود، مولانا عبداللطیف، مو لانا عبدالوحید صدیقی ،مولانا گوہر علی ،قاری طاہر عباسی، قاری شکیل احمد، مولانا محمد مسکین سمیت علماکرام کی کثیر تعداد موجود تھی مو لا نا محمد امجد خان نے کہا کہ جے یو آئی کی خواہش اورکوشش ہے کہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں عام انتخابات اپنے مقررہ وقت پر ہو نے چا ہیے اس کا ملک کا سیاسی ڈھانچہ مضبوط ہو گا آئین کو تحفظ ملے گا آئین کے تحفظ کی تکمیل ہو گی تاہم جے یو آئی عام انتخابات کے لئے ہر وقت تیار ہے جے یو آئی کی مجلس شوریٰ میں اس ماہ میں ہو نے والے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ عام انتخابات قریب ہیں مرکز نے اضلاع کو ابتدائی ورک مکمل کر نے کی ہدا یت کی ہے اضلاع اپنی رپو رٹیں صوبے اور صوبے اپنی رپورٹیں مرتب کر کے عید سے قبل مر کز کو ارسال کریں گے قائد مو لا نا فضل الرحمن کی قیادت میں جے یو آئی ہمیشہ دینی جماعتوں کے اتحاد کی دا ئی رہی ہے آج بھی ہماری کوشش ہے کہ صد سالہ اجتماع میں جو لاکھوں نفوذ پر مشتمل تھا امت میں اتحاداور وعدت کے لئے پیغام دیا ہے جے یو آئی نے دینی جماعتوں کو ہمیشہ اخوت کا پیغام دیا ہے 2013ء کے عام انتخابات میں بھی جے یو آئی دینی جماعتوں کا اتحاد چا ہتی تھی اور آج بھی ہم دینی جماعتوں کا اتحاد چا ہتے ہیں جے یو آئی نے دینی اور سیاسی جماعتوں سے رابطہ کے لئے مو لا نا عبدالغفور حیدری کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی ہے جس میں مو لا نا گل نصیب خان ، مو لانا راشد محمد سومرو،مفتی عبدالشکور ، مفتی مظہر اسعدی اور دیگر شامل ہیں سانحہ مستون کی وجہ سے جو کام تیزی کے ساتھ ہو نا چا ہیے تھا اس میں تعطل آگیا ہے سانحہ مستون پاکستان میں امن کی کاوشوں پر حملہ ہے حکومت کا فرض ہے کہ اس کے پسے پردہ مقاصد سا منے لا ئے سازش بے نقاب کرے جس میں تیس شہیدچالیس افراد زخمی ہو ئے بلوچستان حکومت کے لئے سوالیہ نشان ہے بلوچستان حکومت ہمارے نزدیک امن ، امان اور اہم شخصیات کو سیکورٹی دینے میں نا کا م ہو ئی ہے دو سال قبل مو لانا فضل الرحمن پر بھی حملہ ہوا جے یو آئی وطن عزیز میں نفاذ شریعت کے لئے کوشاں ہے سی پیک کے منصوبے کی تکمیل کے لئے بھی ہم میدان عمل میں ہیں سی پیک کو کالا باغ بنا نے کے لئے مصروف عمل ہیں تا ہم مو لا نا فضل الرحمن کی کوششیں ہیں کہ سی پیک منصوبہ پا یہ تکمیل تک پہنچے اور اس پر کام جاری رہے گا دشمن طاقتوں کا اس کو سبز باغ بنا نے کا منصوبہ کبھی کا میاب نہیں ہو گا ۔

اٹک شہرمیں سستا رمضان بازار کے ریٹ کی معلومات
اٹک شہرمیں سستا رمضان بازار میں آلو سفید پھیکا 23تا 13 ، آلو پھیکا 28-18 ، پیاز23-13 ، ٹماٹر26-22 ، اروی60-50 ، لہسن دیسی چھوٹا115-95 ، لہسن چا ئنا215-195 ، پالک فی گڈی8-18 ، لیموں دیسی235-215 ، گا جر پیلی40-30 ، گو ل بیگن 13-23 ،بند گو بھی 8-18 ،بھنڈی 28-38، کدو13-23 ، ٹینڈا13-23 ، مو لی13-23 ، ادرک105-125 ، کریلا 18-28 ، کھیرا13-23 ، دھنیا فی گڈی9-4 ، پو دینہ فی گڈی9-4 ، سبز مرچ68-58 ، شملا مرچ68-58 ، آلو پھیکا نیو28-38 ، نیو پیاز8-18 ، کا لی توری13-23 ، سیب سفید 115-125 ، سیب ایرانی215-195 ، کیلا اول115-95 ، کیلا دو ئم68-58 ، کیلا انڈین 175-155 ، آم لنگڑا55-65 ، آم سندھڑی115-95 ، آم دیسی75-55 ، آم دو سیری75-55 ، سفید خر بوزہ 18-28 ، آڑو اول135-155 ، آڑو دو ئم65-85 ، خوبانی اول145-165 ، خوبانی دو ئم95-75 ، تر بوز18-28 ، کھجور سکھر 145-178 ، کھجور عراقی135-155 ، کھجور سکھر دوئم95-120 ، کھجور ایرانی155-175 ، بڑا گوشت 290 ، چھوٹا گوشت 490، انڈے فی درجن88 ، مرغ زندہ139 ، اٹک کے عام بازار میں آلو سفید پھیکا 15-25، آلو پھیکا 20-30 ، پیاز15-25 ، ٹماٹر 24-28، اروی55-65 ، لہسن دیسی چھوٹا100-120 ، لہسن چا ئنا200-220 ، پالک فی گڈی10-20 ، لیمو ں دیسی220-240 ، گا جر پیلی 30-40 ، گو ل بیگن 15-25 ، بند گو بھی10-20 ، بھنڈی 30-40 ، کدو15-25 ، ٹینڈا15-25 ، مو لی15-25 ، ادرک 110-130 ، کریلا 20-30 ، کھیرا15-25 ، دھنیا فی گڈی 5-10 ، پو دینہ فی گڈی5-10 ، سبز مرچ60-70 ، شملا مرچ60-70 ، آلو پھیکا نیو 30-40 ، نیو پیاز10-20 ، کا لی توری15-25 ، سیب سفید120-130 ، سیب ایرانی200-220 ، کیلا اول100-120 ، کیلا دو ئم60-70 ، کیلا انڈین 160-180 ، آم لنگڑا60-70 ، آم سندھڑی100-120 ، آم دیسی 60-80 ، آم دو سیری 60-80 ، سفید خر بوزہ20-30 ، آڑو اول160-140 ، آڑو دو ئم70-90 ، خوبانی اول150-170 ، خوبانی دو ئم100-80 ، تر بوز20-30 ، کھجور سکھر150-180 ، کھجور عراقی140-160 ، کھجور سکھر دوئم100-125 ، کھجور ایرانی160-180 ، بڑا گوشت 300 ، چھوٹا گوشت 500 ، انڈے فی درجن93 ، مرغ زندہ 141 صارفین کو کہا گیا ہے کسی قسم کی شکایت کی صورت میں ڈپٹی کمشنر اٹک کے فون نمبر 9316010 ، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل 9316239، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو 9316013 ، اسسٹنٹ کمشنر اٹک 9316271 ، ڈسٹرکٹ آفیسر آئی پی ڈبلیو ایم 9316003پر رابطہ کیا جاسکتا ہے لسٹ جاری کر نے والی کمیٹی میں ڈی ڈی او زراعت ، چیف آفیسر بلدیہ اٹک اورتحصیلدار اٹک شامل ہیں ۔

اٹک سٹی:ڈی پی او آفس میں شکا یت کیلئے آنیوالوں کے لئے بارہ لاکھ رو پے کی لا گت سے با وقار انتظار گاہ تعمیر کر دی گئی ؛ زاہد نواز مروت
ڈی پی او اٹک زا ہد نواز مر وت نے کہا ہے کہ ڈی پی او آفس میں شکا یت کے لئے آنے والوں کے لئے بارہ لاکھ رو پے کی لا گت سے انتہائی با وقار انتظار گاہ تعمیر کر دی گئی ہیں جہاں ضلع بھر سے آنے والے سائلین کو ڈی پی او آفس کے باہر انتظار نہیں کر نا پڑے گا بلکہ ڈی پی او خود ان کے پاس آکر ان کے شکا یت سنیں گے ان خیالات کااظہار انہوں نے با نی چیئر مین الیکٹرو نک میڈیا محمد صدیق کی قیادت میں ملنے والے صحافیوں کے وفد سے بات چیت کر تے ہوئے کیا انہو ں نے کہا کہ دکھی انسانیت کی خدمت سب سے بڑی عبادت ہے انہوں نے عوام اور پولیس کے درمیان خلیج کو کم کر نے کے لئے متعدد اقدامات کیئے ہیں جن کے مثبت ثمرات سا منے آنا شروع ہو چکے ہیں اٹک پولیس کے پاس کو ئی ایسا کیس نہیں جو حل نہ ہو چکا ہے بعض کیسوں میں پولیس جرائم پیشہ افراد کے انہتائی نزدیک پہنچ چکی ہے انہوں نے کہاکہ اٹک پولیس انتہائی بہتر ہے ۔

سٹاکٹن (امریکہ): سرکار دوجہاں کریم آقاؐ کے اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہو کر ہی مسلمان دنیاو آخرت میں فلاح پا سکتا ہے ؛ شاکر خان شینکہ
سرکار دوجہاں کریم آقاؐ کے اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہو کر ہی مسلمان دنیاو آخرت میں فلاح پا سکتا ہے ،حضرت محمد مصطفےٰؐ نے محبت ، اخوت،بھائی چارہ پر زور دیتے ہوئے دین اسلام کو امن کا مذہب قرار دیا رمضان المبارک کا آغاز ہو چکا مخیر حضرات دل کھول کر اپنے روزے دار بھائیوں کی مدد کر یں ان خیالات کا اظہارپاکستان تحریک انصاف نارتھ کیلی فورنیا امریکہ کے وائس چیئر مین شاکر خان المعروف شیک خان نے اپنے ایک بیان میں کیا انہوں نے کہا کہ رمضان المبارک رحمتوں ، برکتوں کا مہینہ ہے ،اس میں سے زیادہ سے زیادہ تلاوت قرآن ، ادائیگی نوافل اور اعمال صالحہ سے کرنے والوں سے رمضان خوش ہوتا ہے اور ان کے لئے بخشش و مغفرت کی دعا کرتا ہے انہوں نے کہا کہ رمضان المبارک میں عبادات کے اہتما م کے ساتھ ساتھ اپنے اڑوس پڑوس میں رہنے والے غریب اور مستحق افراد کی امداد بھی کی جائے تا کہ غریب لوگ بھی رمضان میں اپنے بچوں کے ساتھ سکون سے اللہ کی عبادت اور رمضان کے روزوں کا اہتمام کر سکیں ۔

حضروسٹی:حلقہ پی پی 16میں چنگیز خان کی پوزیشن مزید مضبوط ہونے لگی 
حلقہ پی پی 16میں چنگیز خان کی پوزیشن مزید مضبوط ہونے لگی ،پی ٹی آئی حضرو سٹی کے سابق صدر راجہ ظفر ساتھیوں اور اپنی برادری سمیت چنگیز خان کے قافلے میں شامل ہو گئے ،2018کے الیکشن میں بھر پور ساتھ دینے کا اعلان تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف حضرو سٹی کے سابق صدرراجہ ظفر نے اپنے ساتھیوں اور برادری کی سرکردہ شخصیات سمیت چنگیز خان کے قافلے میں شمولیت کا اعلان کر دیا ،راجہ ظفر کی طرف سے چنگیز خان کے اعزاز میں منعقد کی گئی کارنر میٹنگ میں سابق امیدوار جنر ل کونسلر حاجی اقبال میر ،پھاپا صابر حسین ،زاہد میر ،ملک نسیم ،جنر ل کونسلریوسی غورغشتی لال شاہ ،ترجمان چنگیز خان خان بھائی نرتوپہ ،شامیر خان ،سیف محمود ،محمد مسکین سمیت دیگر اہم شخصیات بھی موجود تھیں ،کار نر میٹنگ سے خطاب کر تے ہوئے امیدوار صوبائی اسمبلی حلقہ پی پی16چنگیز خان نے کہا کہ اللہ کے فضل وکرم سے ملاں منصور سے ڈھوک گاڑ تک اور فورملی سے لیکر غورغشتی تک ہمارے ساتھ شمولیت ہونے والوں کی فہرست کافی لمبی ہے ،چھچھ کی کثیر تعداد میں عوام الناس ہمارے ساتھ شمولیت کیلئے تیار بیٹھے ہیں مگر وقت آنے پر سب لوگوں لوگوں کو اپنے ساتھ لیکر چلیں گے انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن ) نے اپنی تما م سرکاری مشینری کے بے دریغ استعمال کر کے گزشتہ روز نرتوپہ میں جو جلسی کی ہے اس کا بھر پور جوا ب دیں گے ،انہوں نے مزید کہا کہ انشاء اللہ ہمارے ساتھ شامل ہنے والوں کو کبھی بھی ہم سے مایوسی کا سامنا نہیں کر نا پڑے گا بلکہ آج چھچھ والوں کو بتادینا چاہتا ہوں کہ الیکشن 2018میں سب سے زیادہ ووٹ لیکر دکھائیں گے ،مخالفین ہماری شہرت سے خوف زدہ ہو کر جلسے کر نے لگے ہیں لیکن ان کو 2018کے الیکشن میں اپنی حیثیت کا پتہ لگ جائے گا اس موقع پر راجہ ظفر ،عبد القیوم ،محمد سعید نے چنگیز خان کے قافلے میں شمولیت کا اعلان کیا ۔

اٹک سٹی:ٹریفک پولیس کے اے ایس آئی مقرب خان اور ڈرائیور محمد نواز کو ملازمت سے بر طرف کر دیاگیا
ڈی پی او زا ہد نواز مروت نے ڈرائیونگ لا ئسنس میں بے ضابتگیوں کا نوٹس لیتے ہو ئے ٹریفک پولیس کے اے ایس آئی مقرب خان اور ڈرائیور محمد نواز کو ملازمت سے بر طرف کر دیا ہے اور ڈرائیونگ ٹیسٹ انہو ں نے خود لیئے 64امیدواروں میں سے صرف چارامیدوار پاس کیئے گئے قبل ازیں ڈی پی او زاہد نواز مروت نے اپنے آفس میں ضلع کونسل اٹک کے ممبران جن کی قیادت ملک حمیداکبر خان چیف آف شین باغ کر رہے تھے وفد میں سردار واجدعلی خان اور جمریزخان بھی شامل تھے سے بات چیت کر تے ہوئے کہا کہ ضلع کونسل نے ڈرائیونگ لا ئسنس کے حصول کے لئے جن بے ضابتگیوں کی نشاندہی کی تھی ان پر ایکشن لیتے ہوئے دو ملازمین کو ملازمت سے بر طرف کردیا گیا ہے ڈرائیونگ ٹیسٹ کو شفاف بنا نے کے لئے تمام اقدامات برو ئے کا ر لا ئے جائیں گے انہوں نے اس امر کی وضاحت کی کہ اٹک پولیس کو عوام دوست بنا دیا گیا ہے تھا نے دارالامان بنادیئے گئے ہیں جدید ٹیکنالوجی کی مددسے جرائم پیشہ افراد کا قلع قمع کیا جا رہا ہے اسی طرح ٹریفک پولیس کے معاملات کو بھی صحیح ڈگر پر لا یا جا ئے گا انہوں نے ممبران ضلع کونسل سے کہا کہ وہ کسی بھی بے ضابتگی کی شکا یت کریں گے تو اس پرفوری کاروائی کی جا ئے گی ۔

ضلع اٹک:رمضان المبارک کی آمد ،قصابوں کی لوٹ مار،گوشت کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں
رمضان المبارک کی آمد ،قصابوں کی لوٹ مار،گوشت کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں ،اٹک شہر اور گردونواح کے قصاب مہنگے ریٹس وصول کر کے شہریوں کی جیبیں صاف کرنے لگے گوشت کی دوکانوں ،تھڑوں پر مکھیوں سے گوشت کے بچاؤ کیلئے جالیاں نہیں لگائی گئیں ،پرائس کنٹرول مجسٹریٹ کی کارکردگی غیر تسلی بخش ،شہریوں کا ڈی سی اٹک سے نوٹس لینے کا مطالبہ ،تفصیلات کے مطابق اٹک شہر اور گردونواح کے قصابوں نے رمضان المبارک کے بابرکت ماہ کی آمد سے قبل ہی گوشت کے نرخوں میں خود ساختہ اضافہ کر دیا ہے ،ضلعی انتظامیہ کی مبینہ غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے پرائس کنٹرول کمیٹی کی بنائی گئی ریٹ لسٹ کو ردی کی ٹوکریوں میں ڈال کر دھڑلے سے من مرضی کے ریٹس وصول کر رہے ہیں،شہریوں کا کہنا ہے کہ قصابوں کیلئے کوئی چیک اینڈ بیلنس کا نظام نہ ہے جنگل کا قانون ہے انتظامیہ گوشت کے نرخ کنٹرول کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے ،شہر اور گردونواح کے قصاب بکرے اور بکری کا پانی سے لتھڑا ہوا گوشت 800روپے فی کلو ،گائے کا گوشت350روپے سے 400روپے فی کلو بغیر خوف وخطر دھڑلے سے فروخت کر کے شہریوں کی کھالیں ادھیڑ رہے ہیں گوشت کھلے عام دوکانوں کی آگے گلیوں میں تھڑوں پر لٹکایا جاتا ہے جہاں حفظان صحت کا کوئی انتظام بھی نہیں ہوتا ہے ،مکھیوں ،مچھروں اورگردوغبار سے بھرا ہوا گوشت عوام کو فروخت کیا جاتا ہے گوشت کو ڈھاپنے کیلئے جالیوں کا نہ ہونا انتظامیہ اور ویٹر نری ڈاکٹر زکی ناقص کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے حکومتی احکامات کی دھجیا ں بکھیری جا رہی ہیں جبکہ انتظامیہ ٹس سے مس نہیں ہوتی ہے عوامی و سماجی حلقوں نے ڈپٹی کمشنر اٹک رانا اکبر حیات سے سے اپیل کی ہے کہ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں روزانہ کی بنیاد پر گوشت کے چیک اینڈ بیلنس کے نظام کو درست کریں اور قصابوں کو ماہ رمضان میں صحت مند گوشت انتظامیہ کی بنائی گئی کنٹرول لسٹ پر مہیا کرنے کا سختی سے پابند کیا جائے ۔ 

اٹک سٹی:محکمہ سوئی گیس کرپشن کا گڑھ بن گیا ‘ذمہ داران افسران کے وارے نیارے ، سادہ لوح عوام لٹنے لگے
اٹک محکمہ سوئی گیس کرپشن کا گڑھ بن گیا ‘ذمہ داران افسران کے وارے نیارے ، سادہ لوح عوام لٹنے لگے، کنکشن ڈیمانڈ نوٹس سروے رپورٹس کے نام مبینہ ہزاروں روپے کی ڈیمانڈ کی جاتی ہے اگر شہری انکار کریں تو محکمہ سوئی گیس کے کرپٹ افسران ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں جس سے شہریوں کے مسائل میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، نوٹوں کی چمک کے آگے فرض شناس عملہ کسی اورکا میٹر فوری طور لگا دیتے ہیں ، مسلم لیگ (ن ) کے ممبران اسمبلی کی کمزور پالیسیوں کے سبب محکمہ سوئی گیس کے افسران آپے سے باہر ہو گئے، ٹاؤٹ مافیاسار ا دن افسران پر حاوی نظر آتے ہیں با وثوق ذرائع سے معلوم ہو ہے کہ اٹک شیں باغ روڈ پر واقع محکمہ سوئی میں رشوت ستانیاں عروج پر پہنچ گئیں عرصہ دراز سے تعینات ملازمین نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا رشوت کے بغیر عملہ کام کرنا کبیرہ گناہ سمجھتا ہے اور وفاقی وزراء و ایم این ایز ، وزیرداخلہ اس بگڑئے ہوئے نظام کو درست کر نے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں ، بعض ذرائع نے یہ بھی بتایا جو لوگ مک مکا کر لیں ان کا کام کرنے کیلئے افسران حرکت میں آجاتے ہیں اور جو غریب لوگ دو وقت کی روٹی سے محروم ہیں، اپنے جائز کام کیلئے دفتر کے چکر لگانے میں مجبور ہیں ان کی سننے والا اور دارسی کرنے والا کوئی نہیں ، شہری مجبورا یہ مطالبہ کرتے ہیں اس آفس میں جو بھی عرصہ دراز سے ایک ہی سیٹ پر تعینات ہیں ان کا تبادلہ کر کے نئے افسر کی تعیناتی بہت ضروری ہے جو اس محکمہ کو کرپشن سے پاک کر کے میرٹ کی بنیاد پر کام کرے ڈیمانڈ نوٹس، کنکشن ، میٹر ،سروے رپورٹس کے نام پر عملہ تب تک سیدھی بات نہیں کرتا جب تک نوٹوں کی چمک دکھائی نہ دے اندھیر نگری چوپٹ راج ہے بے بس عوام سراپا احتجاج ہے شہریوں کا وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف ، وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان ، جی ایم محکمہ سوئی گیس اسلام ااباد فوری نوٹس لیکر کرپٹ ملازمین جو اس محکمے کو بدنام کرنے میں کردار ادا کر رہے ان بعض کالی بھڑوں کے خلاف کاروائی کریں جو چند کرپٹ ملازمین کی وجہ سے سارے محکمہ کی بدنامی کرنے میں لگے ہوئے ہیں ان کا تبادلہ کیا جائے اور شہریوں کے مسائل حل ہو سکیں ۔

حضروسٹی:قطری شہزادہ کی جے آئی ٹی میں پیشی سے انکار کرنے پر قطری خط ردی کا ٹکڑ ا ثابت ہوگا ؛ قاضی احمد اکبر 
ضلعی صدر تحریک انصاف قاضی احمد اکبر نے کہاکہ حکمران جماعت پانامہ کیس سے بچنے کیلئے جے آئی ٹی کی ساکھ کو داؤ پر لگا رہی ہے‘ شریف خاندان منی ٹریل دینے میں ناکا م ہوچکا ہے ۔قطری شہزادہ کی جے آئی ٹی میں پیشی سے انکار کرنے پر قطری خط ردی کا ٹکڑ ا ثابت ہوگا ،حکمران جما عت اقتدار بچانے کیلئے اداروں میں ٹکراؤ کی پالیسی اپنا رکھی ہے ۔ملکی اقتصادی ، توانائی بحران میں اضافہ ، بیرونی قرضوں کی شرح میں حیران کن اضافہ باعث تشویش ہے ‘بیرونی قرضوں سے کرپشن کی ایک اور داستان رقم ہوگی شریف خاندان قانون سے بالا ترنہیں ہیں ،وزیراعظم کے بیٹوں کا سرکاری پروٹوکول کے ہمراہ پیش ہونا غیر آئینی ہے ‘پاکستان تحریک انصاف اس معاملے پر اپنا موقف سپریم کورٹ میں پیش کریگی فتح حق سچ کی ہوگی ۔ 

اٹک سٹی:ہیپاٹائٹس بیماری کے خاتمہ کے لئے تمام وسائل بروکار لائے جائینگے‘ ہیپاٹائٹس ایک قابل علاج مرض ہے ؛ ملک عبادت خان
ہیپاٹائٹس بیماری کے خاتمہ کے لئے تمام وسائل بروکار لائے جائینگے‘ ہیپاٹائٹس ایک خطرناک بیماری اورقابل علاج مرض ہے جس کے لئے ڈی ایچ کیوہسپتال اٹک میں 22مئی سے لیکر 27مئی تک فری ہفتہ میڈیکل کیمپ لگا یاجاے گا جس میں ہیپاٹائٹس کے مرض کے لئے فری ٹیسٹ ،رجسٹریشن ،اور ادویات فراہم کی جائینگی ان خیالات کااظہار ڈی ایچ او اٹک ڈاکٹر ملک عبادت خان نے ایک ملاقات میں کیاانہوں نے کہا کہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال اٹک میں ہپٹاٹائٹس (جیسے کالا یا پیلہ یرکان ) کہا جاتا ہے جو کہ آج کل پندرہ فیصد آبادی میں پھیلاجارہا ہے جن میں سے بچوں ،جوانوں ،اور بوڑھوں پر مشتمل ہے تمام ایسے مریضوں کی تشخیص کی جائے گئی جو اس مرض میں مبتلا ہو،خادم اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف کے حکم کے مطابق ان موقع پر فری ادویات فراہم کی جائے گئی اس موقع پر ڈاکٹر عبادت نے بتایا کہ اس بیماری سے بچاو کے لئے ہمیں احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہیں حجام کا استرا،ڈینٹل سرجر کا سامان ،خون دیتے وقت ضروری ٹیسٹ کیا جانا چاہیے ۔

اٹک سٹی:فلمی انداز میں درجنوں گاڑیوں کو ٹکریں مارنے ٹرک ڈرائیور کے خلاف مقدمہ درج
فلمی انداز میں درجنوں گاڑیوں کو ٹکریں مارنے ٹرک ڈرائیور کے خلاف مقدمہ درج‘ تفصیلات کے مطابق انسپکٹر ٹریفک پولیس منصف خان تھانہ سٹی اٹک میں ایف آئی آر درج کرائی ہے کہ وہ لاری اڈہ پر کھڑا تھا کہ تین میلہ کی جا نب سے ٹرک نمبر IDS-7248 جسے محمد رئیس ولد محمد اقبال سکنہ کا لا بن ایبٹ آباد چلا رہا تھا نہا یت تیز رفتاری غفلت اور لا پروائی سے درجنوں گاڑیوں کی سائیڈ مار تا ہواآیا جسے رو کا گیا تاہم وہ بھا گ گیا اور کچہری چوک سے فوارہ چوک کی جا نب موڑ گیا جس کو بڑی مشکل سے فوارہ چوک میں جا کر روکا گیا ڈرائیور کے خلاف زیر دفعہ 279/99/MVOت پ کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے ۔

جتیال(حضرو):اچھی کارکردگی دکھانے والے افسران و اہلکاران میں تعریفی سرٹیفکیٹ اور کیش چیک تقسیم کیے گئے
انسپکٹر جنرل آف موٹروے و ہائی وے پولیس کی ہدایت پر اچھی کارکردگی دکھانے والے افسران و اہلکاران میں تعریفی سرٹیفکیٹ اور کیش چیک تقسیم کیے۔ تقریب موٹروے آفس ہٹیاں میں منعقد ہوئی تقریب کے مہمان خصوصی ایس ایس پی نجیب الرحمان تھے انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ عوام کے ساتھ اخلاق اور محبت سے پیش آنا اور اپنے فرائض کی انجام دہی میں بلا تفریق کسی دباؤ لالچ اور سفارش کے اپنے فرائض منصبی پورے کرنا ہماری سروس کا حصہ ہے موٹروے پولیس کی کار کردگی اپنے فرائض کے اعتبار سے پوری دنیا میں تسلیم شدہ ہے نوجوانوں کی اپنے ادارہ سے وابستگی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے اللہ کے فضل و کرم سے موٹروے پولیس صحیح سمت میں گامزن ہے انہوں نے کہا کہ آج تعریفی سرٹیفکیٹ اور نقد کیش چیک کی تقسیم آپ کی صلاحیتوں کا منہ بولتاثبوت ہے تقریب میں ڈی ایس پی حامد بنگش انسپکٹرز ناصر گیلانی اعجاز نوری محمد اسلام اور دیگر میں تعریفی سرٹیفکیٹ اور کیش چیک ایس ایس پی نجیب الرحمان نے اپنے ہاتھوں سے تقسیم کئے۔

اٹک سٹی:واپڈا حکام نے حکومتی اعلانات کی دھجیاں اڑا دیں ‘غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا سلسلہ بھی جاری 
واپڈا حکام نے حکومتی اعلانات کی دھجیاں اڑا دیں ‘اٹک اور گردونواح میں بجلی کا طویل بریک ڈاؤن رات گئے پیدا ہونے والا فالٹ ساری رات گزرنے پر سحری اور نماز فجر میں بھی ٹھیک نہ ہوسکا‘ غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا سلسلہ بھی جاری ‘عوام کا واپڈا کے خلاف شدید احتجاج سحری تراویح میں بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا سلسلہ بریک ڈاؤن کی شکل اختیار کر گیا سوموار اور منگل کی درمیانی رات اٹک ،سنجوال، کامرہ، شکر درہ، اکھوڑی، بوٹا، جبی، بولیانوال، گولڑہ، بھدری، دورداد، سقہ آباد، اڑانگ ،بٹھو، زیندی، کواہ پنڈ، تریڑ اور گردونواح بجلی کی بندش سے تاریکی میں ڈوب گئے سحری اور نماز فجر کے اوقت میں بھی بجلی بحال نہ ہو سکی سحری میں عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا عوام علاقہ نے میڈیا کو بتایا ہے کہ واپڈا حکام جان بوجھ کر ماہ مبارک میں اس طرح کی صورتحال بنا کر عوام کو تنگ کر کے حکومتی احکامات اور اعلانات کی بھی دھجیاں اڑا رہے ہیں عوام علاقہ نے کہا کہ حکومت جس اعلان پر عملدرآمد ہی نہیں کر آسکتی ایسے اعلان کیوں کئے جاتے ہیں لوگوں نے بتایا کہ غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا سلسلہ مسلسل جاری ہے حکومت نے اگر اس صورتحال کا نوٹس نہ لیا تو شدید احتجاج پر مجبور ہوں گے۔

اٹک سٹی:رمضان سستا بازار گلی کی بندش سے مکینوں اور دکانداروں کو سخت مشکلات کا سامنا 
رمضان سستا بازار گلی کی بندش سے مکینوں اور دکانداروں کو سخت مشکلات کا سامنا ‘رمضان سستا بازار سے ملحقہ ڈاکٹر فاروق اعظم ہسپتال والی گلی کے مکینوں اور دکانداروں نے میڈیا کو بتایاہے کہ انتظامیہ نے ہماری گلی کو قناتیں لگا کر بند کردیا ہے جس سے نہ صرف مکینوں کو اپنے گھروں تک پہنچنے میں دشواری کا سامنا ہے بلکہ دور سے چکر کاٹ کر گھروں تک آنا پڑتا ہے ان گلیوں کی بندش سے دکانداروں کو بھی سخت مشکلات کا سامنا ہے تجارت نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے اس گلی کے مکینوں اور دکانداروں نے ڈپٹی کمشنر اٹک رانا اکبر حیات سے بند گلی کھولنے اور سیکورٹی تعینات کرنے کا مطالبہ کیا تاکہ عوام آسانی سے چیکنگ کے بعد آجا سکیں ۔

ماہ رمضان کے فضائل و مسائل تحریر؛علامہ رفاقت علی حقانی(بانی و مہتمم جامعہ حقانیہ ظاہرالعلوم رجسٹرڈ اٹک کینٹ)
اللہ تعالیٰ نے ماہ رمضان کے روزے مسلمانوں پر فرض کئے ہیں قرآن میں ارشاد ربانی ہے کہ’’ اے ایمان والو !تم پر روزے فرض کئے گے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ کہیں تمہیں پرہیز گاری ملے‘‘(پ2)۔ حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک ہر امت پر روز ہ فرض رہے چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام کی امت پر ہر قمری مہینہ کی تیرہ ، چودہ اور پندرہ تاریخ کے تین روزے اور موسیٰ علیہ السلام کی امت پر یوم عاشورہ کا روزہ فرض رہا۔اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بڑے پیارے انداز میں فرمایا کہ روزے صرف تم پر فرض نہیں کئے تم سے سابقہ امتوں پر بھی فرض تھے روزہ رکھنے کا فائدہ یہ ہے کے تم جہنم کی آگ سے بچ جاؤ گے کیونکہ گناہ کرنے والا نفس ہے اور یہ کھانے پینے سے قوی ہوتا ہے جب روزہ سے اس کی قوت ٹوٹے گی تو تمہیں گناہ کی طرف رغبت بھی کم ہو گی اور پرہیز گاری بھی حاصل ہو گی ۔
روزہ رکھنے میں بہت سی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔روزہ رکھنے سے بھوک اور پیاس کا پتا چلتا ہے جس سے غذا اور پانی کی قدر ہوتی ہے بھوک بہت سی بیماریوں کا علاج ہے کیونکہ اس سے معدے کی اصلاح ہوتی ہے۔حضورﷺ نے فرمایاروزہ رکھو صحت یاب ہو جاؤگے۔
تین شخص بہت بد نصیب ہیں ایک وہ جو حضورﷺ کا نام سنے اور درود نہ بھیجے،دوسرا وہ جو ماں باپ کا بڑھاپا پا کر جنت حاصل نہ کرے ،تیسرا وہ جو رمضان پا کرجہنم سے آزادنہ ہو جائے(حدیث)۔قیامت کے دن ماہ رمضان ا ور قرآن روزہ دار کی شفاعت کریں گے۔حدیث شریف میں ہے کہ رمضان کی آمد پر جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اورجہنم کے دروزے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیاطین کو پابند سلاسل کر دیا جاتا ہے۔رمضان شریف میں جو شخص نفل ادا کرے گا فرض کا ثواب پائے گا اور جو فرض ادا کرے گا اسے70فرائض کا ثواب ملے گا۔اس ماہ کا اول عشرہ رحمت، دوسرا مغفرت اور آخری جہنم سے آزادی کا ہے (حدیث)
علماء فرماتے ہیں کے جو رمضان میں مر جائے اس سے قبر کے سوالات نہیں ہوتے ،رمضان شریف میں سحری اور افطاری کے وقت کی جانے والی دعا ئیں قبول ہوتی ہیں اس کے علاوہ شب قدر بھی قبولیت والی شب ہے،ہرشے کی پہچان کے لئے کچھ نشانیاں ہوتی ہیں مثلابارش ہوتی ہوتو آسمان پر کالے بادل چھاجاتے ہیں اور جب قیامت قریب آئے گی تو لوگ شراب کا استعمال بکثرت کریں گے سورج مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع ہو گااسی طرع شب قدرکی نشانیوں سے متعلق امام شعرانی علیہ الرحمتہ لکھتے ہیں کہ شب قدر صاف اور شفاف ہوگی نہ گرمی کی حدت ہوگی نہ سردی کی شدت، ہوا نہ ہوگی اس رات کو بارش بھی نہ ہوگی اور اس رات کی صبح کو خورشید بغیر شعاع کے طلوع ہوگا۔
رمضان کے آخری عشرہ میں مسجد میں اعتکاف بیٹھنا دو حج اور دو عمرے کرنے کے برابر ہے جبکہ عورت اپنے گھر کی مسجد میں اعتکاف کرے اگرگھر میں مسجدنہ ہو توگھر کا ایک گوشہ اس مقصدکے لئے استعمال کرے۔
رمضان شریف میں بیس ر کعت نماز تراویح سنت موکدہ ہے۔صحابہ اورخلفائے راشدین کے عہد میں تراویح بیس رکعت پڑھی گئیں،چاروں اماموں کا بھی بیس رکعت پر اتفاق ہے ،مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں شروع سے لے کر آج تک بیس رکعت ہے پرعمل ہے۔ رمضان شریف میں کم از کم ایک دفعہ قرآن ختم کرنا چاہئے اگر زیادہ ہو سکے تو بہت ثواب ہے، ہمارے امام اعظم ابوحنیفہؓرمضان میں اکسٹھ(61)دفعہ قرآن ختم کرتے ایک دن کو ایک رات کو اورایک نمازتراویح میں۔
مسائل و احکام؛سال میں پانچ دن کے روزے رکھنا حرام ہے ،عید الفطر اور13,12,11,10ذوالحجہ، لہٰذا مریض اور مسافر جن کے ذمہ قضا روزے ہوں وہ ان پانچ دنوں کے علاوہ قضا کریں۔ حاملہ یا دودھ پلانے والی عورت کو روزہ سے اپنی یا بچے کی جان کا اندیشہ ہو تو روزہ نہ رکھناجائز ہے ،سرمہ لگانے، تیل لگانے،خوشبوسونگھنے اور مسواک کرنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا بلکہ مسواک کے تو بہت فوائد ہیں ۔منہ میں تھوک اکھٹا کر کے نگل جانا روزہ میں اور اس کے علاوہ بھی ناپسندیدہ فعل ہے بلکہ روزہ کی حالت میں مکروہ ہے قصداًمنہ بھر کے برابر ہی ہو تو روزہ نہ ٹوٹے گا۔
جھوٹ ،گالی،غیبت،کسی کو تکلیف دینا،تاش،شطرنج،سینما،تماشا،سود،رشوت،داڑھی مو نڈوانایا کترنا،گانا بجاناوغیرہ ویسے بھی یہ چیزیں ناجائزوگنا ہ ہیں اور روزہ میں زیادہ حرام اور روزہ کے مکروہ ہونے کاسبب ہیں ان سب سے بچنا چائے تاکہ روزے کا اصل لطف حاصل ہو سکے ۔کلی کی بلاقصد پانی حلق سے اتر گیا یا ناک میں چڑھایا اور دماغ کو چڑھ گیا روزہ ٹوٹ جائے گامگر جبکہ روزہ کا ہونا یاد نہ ہو تو روزہ نہیں ٹوٹے گااگرچہ قصداً ہو۔
عید کی نماز سے پہلے پہلے اپنی اور اپنے بچوں کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرناواجب ہے صدقہ فطر گھرکے تمام افراد کی طرف سے ادا کرنا چائے حتیٰ کہ عید کے دن بھی سورج طلوع ہونے سے پہلے جو بچہ پیدا ہو اس کی طرف سے بھی صدقہ فطر ادا کیا جائے۔صدقہ فطر ادا نہ کرنے سے روزے ،زمین اورآسمان کے درمیان معلق رہتے ہیں ۔نماز عید سے پہلے نوافل ادا کرنا مکروہ ہے۔ 

کالم چولستان کی آواز تحریر: عابدحمید قریشی ‘سرپرست وائس آف چولستان فاؤنڈیشن (رجسٹرڈ)
موبائل نمبر03004311155 ;
ملک میں سیاحت کو فروغ دینے کیلئے ہزاروں پرکشش اور تاریخی جگہوں میں سے ایک جگہ چولستان بھی ہے اورتاریخ بتاتی ہے کہ آج سے پانچ ہزار سال پہلے جب سکندر اعظم دنیا فتح کرنے نکلے تھے توانہوں نے پاکستان کے چولستان میں اوچ قلعہ فتح کیا اورکئی روزقیام بھی کیا تھا،دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ قلعے پاکستان کے بہاولپور سر زمین چولستان میں ہیں ویسے تو پاکستان میں سینکڑوں قلعے ہیں لیکن چولستان میں قلعوں کی تعداد 29 ہے اور اس کے علاوہ محلوں اور پرانی عمارتوں کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہے اورمساجد،خانقاہیں، صحابہ کرام،ؓ ولی اللہؒ کے مزارات بھی ہیں صحرائی چولستان کے راستوں کی مجموعی لمبائی 1189 میل بنتی ہے چولستان بہاولپور کے تین اضلاع بہاولپور، بہاولنگر اور رحیم یار خان کے راستے صحراکی جانب قلعوں تک جاتے ہیں چولستان میں واقع قلعوں کے نام1قلعہ پھلڑافورٹ عباس،2 قلعہ مروٹ،3قلعہ جام گڑھ مروٹ،4 قلعہ موج گڑھ مروٹ،5 قلعہ مبارک پور چشتیاں،6قلعہ فتح گڑھ امروکہ بہاولنگر،7قلعہ میر گڑھ مروٹ،8قلعہ خیرگڑھ،9قلعہ بہاول گڑھ،10قلعہ سردار گڑھ ولہر،11قلعہ مچھلی ،12قلعہ قائم پور،13قلعہ مرید والا،14قلعہ دراوڑ،15قلعہ چانڈہ کھانڈہ،16قلعہ خانگڑھ،17قلعہ رکن پور،18قلعہ لیاراصادق آباد،19قلعہ کنڈیر اصادق آباد،20قلعہ سیوراہی صادق آباد،21قلعہ صاحب گڑھ رحیم یارخان،22قلعہ ونجھروٹ ،23قلعہ دھویں،24قلعہ دین گڑھ،25قلعہ اوچ،26قلعہ تاج گڑھ رحیم یارخان،27قلعہ اسلام گڑھ رحیم یار خان،28قلعہ مؤمبارک رحیم یار خان(29)قلعہ ٹبہ جیجل حاصل ساڑھو بہاولنگرمیں ہیں۔ اسکے علاوہ بہت سی تاریخی عمارتیں،محلات،مقامات بھی ہیں اوربہت سوں کاوجودہی دنیاسے ختم ہوگیاہے۔ہمارے ملک میں سیاحت کو فروغ دینے کیلئے ہزاروں پرکشش اور تاریخی مقامات میں سے ایک مقام چولستان کابھی ہے اگرچولستان میں موجود مختلف عمارتوں، قدرتی ماحول و کلچر،تاریخی قلعے،پرانی عمارتیں ومحل ہیں کو تھوڑی سی بھی توجہ مل جائے تودنیا کے سیاحوں کارخ پاکستان کے چولستان کی طرف ہوسکتا ہے جس سے پسماندہ چولستانی علاقے میں بے روزگاری کاخاتمہ ہوگا اور زرمبادلہ میں بھی اضافہ ہوگااس کے علاوہ دنیابھرمیں صحرائے چولستان ایک تاریخی خطے کی حثیت اختیار کرجائے گاجس طرح لوگ گرمی کی شدت سے محفوظ رہنے کیلئے ہل اسٹیشنوں پے جاتے ہیں اسی طرح وہی لوگ موسم سرما میں سن باتھ کرنے کیلئے چولستان کے ٹیلوں کا رخ کرنے پر مجبور ہوجائیں گے مزید یہ کہ اس لق ودق صحرا میں ایک بہت بڑا قدرتی دودھلہ جنگل فورٹ عباس ہے اوردودھلہ جنگل میں پنجاب حکومت نے تفریحی پارک کے منصوبے کا بھی آغاز کا اعلان کیا ہے اور لال سنہارا میں مصنوعی جنگل اور تفریحی نیشنل پارک بھی بنایا گیاہے جہاں دور دور سے سیر کرنے کی خاطر لوگ آتے ہیں عربی شہزادے تو اس صحراکے دیوانے ہوکر رہ گئے ہیں ابھی حال ہی میں دوست ملک چین نے یہاں پر سولرپارک بجلی پیداکرنے کی خاطر گراں قدراقدامات کئے ہیں۔voice of cholistan foundation کے قیام کا یہ مقصد ہے کہ حکومت چولستان کے قلعوں کی اصلی حالت میں بحالی،پرانی تاریخی عمارتوں کی مرمت، ایسے پر کشش ماڈل گاؤں بناناجس میں دیسی گھی،مکھن،پنیر،ساگ،لسی،باجرے کی روٹی سمیت ہر چیز خالص ملے اور مہمان خانے،ہٹی چبوترے،مکان مٹی سے لپیے ہوئے ہوں جو دل کش اورخالصاً دیہاتی طرز کے ہوں،اہرام مصر کی طرزپرمصنوعی مٹی کے ٹیلوں سے اہرام چولستان اورانٹرنیشنل اسٹیڈیم مصنوعی پارکوں اور بڑا جنگل بنانے اور ان کوٹرین وسڑک کے ذریعے آپس میں ملانے جیسے اہم منصوبوں اور شجرکاری مہم میں دلچسپی لے تو چولستان کے ہر بچے تک تعلیم،سکول،ٹی بی ،یرقان ،پولیوں جیسی بیماریوں کے خاتمہ کیلئے فری میڈیکل کیمپ،ہسپتال، صحت،پانی کی کمی دور کرنے کیلئے ٹیویل،ہینڈپمپ،کنووں کھدائی، جیپ وموٹرسائیکل ریلی سمیت مختلف کھیلوں کے سپورٹس ایونٹ،صاف پانی کی فراہمی اورچولستان کی تعمیرو ترقی ،خوشحالی کے دیگرپروجیکٹ کی تکمیل کے عزم میں مصروف ٹیم حکومت،دیگر فلاحی اداروں ،مخیرحضرات اورکمپنیوں کی مکمل معاونت کرنے کوتیارہیں۔وائس آف چولستان فاؤنڈیشن(رجسٹرڈ) کے مقاصد(1)انسانیت کی خدمت،معاشرتی برائیوں کاخاتمہ اورآپس میں ہم آہنگی پیداکرنا (2) مستحق اورنادار مریضوں کیلئے فری میڈیکل کیمپ،میڈیسن کا بندوبست کرنااور مہک بیماریوں کا خاتمہ اور صحت عامہ کیلئے کام کرنا(3)غریبوں اورمسافروں کیلئے دسترخوان اور گرمیوں میں مختلف مقامات میں ٹھنڈے پانی کی سبیلیں لگانااور صاف پانی کی فراہمی(4)مستحق غریب بچیوں کو جہیز مہیاکرنا(5)بھٹہ مزدور، لیبر،اقلیت اورخواتین کے حقوق کا تحفظ اور انصاف فراہم کرنا(6)غریب بچوں کوقلم،کتاب،کاپی،بستہ اورتمام تعلیمی سہولیات مہیاکرناوالدین اور استاتذہ کی نگرانی میں بچوں کی اصلاح کرنا(7)حکومت کے ترقیاتی کاموں میں معاونت ونگرانی کرنااورسماجی کاموں میں لوگوں کے ساتھ مل کر کام کرنا(8)عوام میں صحت وصفائی اور آلودگی سے بچاؤکا شعور پیداکرنااورمنشیات و ملاوٹ کیخلاف اقدامات کرنا(9)ہر سال ہرممبر 5سے10درخت لگائے گا، دو بچے سکول داخل کروائے گا (10)چائلڈلیبر کا خاتمہ کرنا۔(11)دینی ،رسمی و غیر رسمی تعلیم،معاشرتی تعلیم ،تفریحی مشاغل اور دیہی علاقوں میں عورتوں میں تعلیم کا شعور پیدا کرنا۔(12)ہفتہ خدمت انسانیت سال میں دو مرتبہ منانا۔۔ملکی قوانین کااحترام کرنا۔چولستان کی تعمیرو ترقی پاکستان کی خوشحال۔

1۔قلعہ پھلڑا۔ یہ ایک قدیم قلعہ ہے اور کسی زمانے میں بیکا نیر کے راجہ بیکانے تعمیر کرایا تھا ۔ ۱۱۶۶ھ ۱۷۵۱ء میں یہ قلعہ بالکل کھنڈر بن چکا تھاکرم خان اربائی جو قائم خاں (قائم پورتحصیل حاصلپور کا بانی)نے اس کی تعمیر کرایا تھا اس قلعہ کی بیرونی دیواریں تمام ترپکی اینٹوں سے بنی ہوئی تھیں اور دونوں دیواروں کے درمیان کا حصہ مٹی سے بھرا ہوا تھااس کو دھوڑا کہتے ہیں تاکہ گولہ باری سے قلعہ کو نقصان نہ پہنچے۔قلعہ کے اندر مغربی حصے میں ایک کنواں ہے جو۱۱۸فٹ گیرا اور چار فٹ قطر میں تھااس کا پانی میٹھا ہے ۔قلعہ کے چاروں کونوں پرمنیاریں ہیں جن کے درمیان میں رہائشی کمرے ہیں شمال مغربی منیار پختہ اینٹوں کی بنی ہوئی ہے جنوبی حصے میں ایک سہ منزلہ عمارت ہے جو بہت خوبصورت اقامات گاہ ہے اس اقامت گاہ کی پیشانی پر لکھا ہوا ہے۔(مالک ایں محمد اکمل خاں داؤدپوترارمضان المبارک ۱۱۴۴ھ)قلعہ کے باہر بھی تین کنویں ہیں مگر ان کا پانی کھاراہے یہ قلعہ بہاولپور سے مشرق میں بیکانیر کی سمت واقع ہے قلعہ کے اوپر تین توپیں بھی تھی ۔۔۔۔
2۔:قلعہ مروٹ۔ یہ قلعہ انتہائی قدیم ہے کسی زمامے میں اس کے دروازے پر ایک کتبہ لکھا تھا۔سمبت ۱۵۴۸پرکھی،پوہ سودی۲۔مروٹ پاتھا۔ملک جام سومرا۔کوٹ پکی کھیل پھیرائی۔اس کتبہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ قلعہ جام سومرا کے قبضہ میں رہ چکا تھا اوراس نے ۱۴۹۱ء میں اس کی مرمت کرائی تھی۔اس قلعہ کے اندر ایک مسجد شاہ مردان مشہور ہے اس پر تحریر ہے۔تبا شد ایں مسجد مبارک دردور جلال الدین محمد اکبر بادشاہ غازی ،شاہ محمود الملک،حاکم محمد طاہر،اہل فرمائش سید نصراللہ۹۷۶ھ تمام شد۔مروٹ کا قلعہ چتوڑ کے مہروٹ نے تعمیر کرایا تھا جس نے راجہ چچ سے جنگ لڑی تھی اس کے بعد اس قلعہ کا نام قلعہ مہروٹ رکھا گیا جو بگڑ کر قلعہ مروٹ بن گیا یہ قلعہ چونکہ دہلی اور ملتان کی شاہراہ پر واقع تھا ۔بہت مشہور منڈی اور قصبہ تھا وہاں کے قدیم باشندوں کو وہاں کے کسی عادل حکمران سے بڑی عقیدت تھی قلعہ مروٹ بہت بلند ٹیلہ پر تعمیر کیاگیا تھا جو بہت دور سے نظر آتا ہے۔فصیل کے ساتھ بڑے برج بنے ہوئے ہیں۔مغربی جانب ایک قدیم محل کے آثار ملتے ہیں کہا جاتا ہے کہ یہاں مہاراجہ بیکا نیروالی کی رہائش تھی اب وہاں سوائے ویرانی کے اور کچھ نہیں ہے ورنہ یہ قلعہ اپنے اندر سیاحوں کیلئے خاص کشش اور جازبیت رکھتا ہے۔ ۔۔۔۔

3قلعہ جام گڑھ۔ یہ قلعہ۱۲۰۳ھ /۱۷۸۸ء میں جام خان معرونانی نے تعمیر کروایا تھا۔ یہ قلعہ مروٹ سے میرگڑھ جاتے ہوئے راستے میں پڑتا ہے ،اس کی بیرونی فصیل پختہ بنائی گئی تھی اور اندر سے کچہ تھا۔ اس کے چاروں کونوں پر منیار تھیں جام خان کے فوت ہونے کے کچھ عرصے بعد ہی اس قلعہ کی دیواریں اور چھتیں اپنا بوجھ نہ سہارسکیں اور گرپڑیں پھر مرمتیں نہ ہونے کے باعث آہستہ آہستہ منہدم ہوتا چلاگیا۔اس کا پھاٹک جو پختہ تھا بیسویں صدی کے اوائل تک اسہی آب تاب سے کھڑا رہا اس قلعہ میں سوائے پھاٹک کے کسی بھی جگہ لکڑی کا کام نہیں ہوا تھا اس کا پانی کھاری ہوگیا اور یہی اس قلعہ کے ویرانی اسباب تھے۔۔۔۔۔۔ 

4۔قلعہ موج گڑھ۔ وڈیرہ معروف خان کہرانی نے۱۱۵۷ھ/۱۷۴۳ء میں ایک مقام لودھرا پر قلعہ موج گڑھ کی تعمیر کرائی۔وڈیرہ معروف خاں کہرانی۱۱۷۱ھ/۱۱۵۷ء میں مرگیا پھر اس کے لڑکوں جان محمد،عظمت خان اور حمزہ خان نے اس قلعہ کی تکمیل کرائی اس وڈیرے نے اپنی زندگی میں ہی اپنے لیئے مقبرہ بنوالیا تھا۔یہ مقبرہ بھی قلعہ موج گڑھ سے دو فرلانگ کے فاصلے پر موجود ہے اس کے بیٹے جان محمد نے اپنے باپ کی تعمیر میں کچھ ردوبدل کرکے ڈیزائن پلان تبدیل بھی کیا اور جب یہ فوت ہوگیا تو تیسرے بیٹے حمزہ خان نے قلعہ کی تعمیر کا کام جاری رکھا اور وہاں کا امیر بن گیا جب یہ مرگیا تو اس کے بیٹے معروف خان نمبر۲سردار بن گئے مگر وہ بے اولاد تھے لہذا سرداری معروف خان نمبر1کے تیسرے بیٹے نور محمد خان کے حصے میں آئی اور یہ قلعہ میں مدتوں رہتا رہا۔قلعے کے بڑے دروازے پر آہنی پلیٹ پر لکھا ہوا ہے ۔؛ملک وڈیرہ جان محمد خان ،محمد معروف خان داؤد پوترہ کہرانی۔؛ایں دروازہ ساخت کردہ مسمی سری رام آہنگر ،درماشوال ۱۲۱۲ھ ۔ یہ قلعہ پکی اینٹو ں سے تعمیر کیاگیا تھا اس کی فصیل بہت بلند ہے ۔قلعہ کی خوبصورت مسجد اور معروف خان کا مقبرہ دیکھنے کے قابل ہے۔قلعہ کے مشرق میں تالاب سوکھا پڑا ہے اور یہ قلعہ ضلع بہاولنگر میں واقع قلعہ مروٹ سے ۱۸میل کے فاصلے پر چولستان میں دشوار راستوں سے جانا پڑتا ہے۔ 
5۔قلعہ مبارک پور۔نواب مبارک خان نے ۱۱۷۴ھ/۱۱۵۷ء میں شہر فرید کے نزیک(موجودہ چشتیاں) ایک قلعہ تعمیر کرایا تھا اس کا نام قلعہ مبارک پور رکھا تھا، یہ قلعہ کچی مٹی(دھوڑ) کا بنا ہوا تھا۔دیواریں بہت بلند تھیں قلعہ کے شمالی جانب بڑا دروازہ تھا جس کے اوپر ایک پختہ سہ دری اور بنگلہ بناہواتھا اندر رہائشی مکانات تھے اب یہاں صرف مٹی کے ٹیلے ہیں اور قلعہ کھنڈر میں تبدیل ہوچکا ہے۔یہ قلعہ دراصل لکھویرااور جوئیہ ذات کے شورش اور بغاوت کرنے والے درساروں سے مقابلے کیلئے تعمیر کیا گیا تھانواب بہاول خان دوم نے قلعہ کے اوپر تک توپ رکھوادی تھی جو ۱۸۸۰ء تک قلعہ کے دمدہ پر رکھی جس پر ایک پیتل کی تختی پر یہ تحریر کندہ تھے۔سرکار رکن الدولہ ،نصرت جنگ ،سیف الملک محمد بہاول خان بہادر عباسی،۱۲۱۷ھ۔
6۔قلعہ فتح گڑھ۔۱۲۱۴ھ/۱۷۹۹ء میں نواب محمد بہاول خان دوم نے گوادینا کے مقام پر ایک قلعہ تعمیر کرایا ۔یہ مقام موجودہ بہاولنگر میں امروکا ریلوے اسٹیشن سے۱۵میل شمال مغرب میں واقع تھا اس قلعہ کا نام فتح گڑھ رکھا یہ قلعہ باہر سے پختہ تھا مگر اندر سے دیواریں کچی تھیں اور قلعہ کے اندر ایک گہرا کنواں کھدایا تھا اور قلعہ کے باہر دو پکے کنویں بنوائے جو بارش کے پانی سے بھرتے تھے اٹھارویں صدی کے آخری دنوں تک یہاں فوج رہا کرتی تھی اس کا نگہبان ہمیشہ داودپوترہ ہوتا تھااب یہ قلعہ نابود ہوچکا ہے اس کی ایک چھوٹی سی بستی ہے جہاں عربانی ذات کے لوگ رہتے ہیں۔
7۔قلعہ ٹبہ جیجل ۔ ضلع بہاولنگر میں ایک مقام حاصل ساڑھو ہے اس سے چند میل کے فاصلے پر یہ ٹبہ موجود ہے کہاجاتا ہے کہ قدیم زمانے میں یہاں ایک زبردست دفاعی قلعہ تھا جو وقت کے ہاتھوں اب ایک ٹبہ رہ گیا ہے۔ بیکا نیر کی سرحدپر واقع ہونے کی وجہ سے گمان ہوتا ہے کہ قدیم زمانے میں بھی یہاں سے حملے ہوتے رہے اس قلعہ کے ساتھ دریا بہتا تھا یہ بھی نہیں کہا جا سکتا ہے کہ دریا ستلج تھا یا دریا گھاگرا تھا اب یہاں دور دور تک کچھ آثار نہیں ہیں یہ روائت ہے کہ قلعہ کو راجہ رائے بھاٹیہ نے تعمیر کرایا تھا۔یہ قلعہ پختہ اور خام اینٹوں سے بنایاگیاتھا اور اینٹیں بھی بڑے سائز کی تھیں۔راجہ خصوصاً اس قلعہ میں موسم برسات میں آکر قیام کرتا تھا اب یہاں کچھ بھی نہیں ہے۔

8۔قلعہ میرگڑھ۔ جام خان کے بیٹے نور محمد خان نے۱۲۱۴ھ/۱۷۹۹ء میں ایک قلعہ کی تعمیر شروع کی تھی اور ۱۲۱۸ھ/۱۸۰۳ء میں اس قلعہ کو مکمل کیا اس قلعہ کا بیرونی حصہ پختہ تھا اس کا ایک داخلی دروازہ تھا اور چار میناریں تھیں داخلی دروازے کے دو حصے تھے بیرون دروازے پر لوہے کی سلاخوں کے ساتھ منڈھی ہوئی تھیں پھر اندر ڈیوڑھی تھی اس کے بعد اندر کا دروازہ تھا ۔یہ لکڑی کا تھا ۔قلعہ کے صحن میں رہائشی مکانات تھے صحن میں دو میٹھے پانی کے کنویں تھے جو اب خشک ہوکر بھر گئے ہیں۔یہ قلعہ ضلع بہاولنگر میں قلعہ پھولڑہ سے بجانب غرب ۱۴ میل کے فاصلے پر ہے اس وقت قلعہ کی فصیل بالکل شکست حالت میں ہے اندر کے مکانات مٹی کا ڈھیر بن گئے ہیں اب نہ گھر نہ دروازہ سب ختم۔

9۔قلعہ خیر گڑھ۔ چولستان کی جانب تیس میل کے فاصلے پر ایک قلعہ ہوتا تھا ،اب بھی کچھ آثار نظر آجاتے ہیں یہ قلعہ اختیار خان کے بیٹے حاجی خان نے ۱۱۸۹ھ/۱۷۷۵ء میں تعمیر کرایا تھا اور اس کا نام قلعہ خیر گڑھ رکھا تھا ۔یہ قلعہ دفاعی وجوہات کی بناء پر تعمیر ہوا تمام قلعہ کچی اینٹوں سے بناہوا تھااس قلعہ کے اندر ایک پکا تالاب بھی تھا اور صحن میں رہائشی مکانات تھے ان میں کچھ پکے بھی تھے۔ مراد شاہ کے بموجب قلعہ کی فصیل کے کچھ حصے پکے بھی تھے۔داخلی پختہ دروازہ تھا جس کے اوپر رہائشی حصہ بھی تھا اس بات کے امکانات بھی ہیں کہ یہ امتدادزمانہ کے علاوہ یہ قلعہ پانی کی کم یابی کی وجہ سے ویران ہوا پھر آہستہ آہستہ مرمت نہ ہونے کی وجہ سے منہدم ہوگیا اور اب صرف ایک ڈھیر سے زیادہ نہیں ہے۔ 
10۔قلعہ بہاول گڑھ۔ نواب محمد بہاول خان دوم اٹھارویں صدی کے آخر میں جب حکمران بنے تو انہوں نے ریاست بیکانیر کی سرحد پر دفاعی لحاظ سے مسافرانوالہ کے مقام پر ایک قلعہ تعمیر کرایا تھا ۔بہاول پور گزیٹر۱۹۰۴ء کے مطابق یہ قلعہ۱۷۹۱ء میں تعمیر کرایا تھا اس قلعہ کے قریب ایک باغ دس بیگھ زمین میں لگایا گیا یہ نہیں معلوم کہ چولستان کے اس باغ میں کس قسم کے پودے لگائے گئے اور ان کے پانی کیلئے پانی کا کیا انتظام رکھا گیا تھا۔ نواب دوم کے زمانے میں پہلے یہ جگہ دفاعی چوکی تھی پھر یہ قلعہ تعمیر ہوا یہ قلعہ انیسویں صدی کے آخری ایام تک منہدم ہوچکا تھا اور اس کا ملبہ کسی دوسری جگہ لے جایا گیا۔۱۸۷۰ء میں جب یہ قلعہ مسمار کیاگیا تو اس میں ہزاروں کی تعداد میں بڑے بڑے توپ کے گولے برآمد ہوئے تھے۔غالباً یہ وہ ذخیرہ تھا جو اس قلعہ میں دفاعی اہمیت کے پیش نظر جمع کیا گیا تھا اب وہاں سوائے مٹی کی ڈھیریوں کے اور کچھ نظر نہیں آتا۔
11۔قلعہ سردار گڑھ۔ نواب مبارک خان نے۱۱۷۷ھ/۱۷۶۳ء میں ولہر کا علاقہ ریاست بیکانیر سے پٹہ پرلیا تھا اور وہاں ولہر کے قلعہ کے کھنڈرات پر ایک قلعہ کی تعمیر شروع کردی۔ بیکانیر کے راجہ سنگھ نے ان کو منع کیا جب نواب صاحب نے انکار کردیا تو ایک آفیسر بنام سردار مول چند برہیلا کو بھیج کر ولہر کو واپس لے لیا نواب صاحب نے خیر محمد خان مہروخان پرجانی اور اکرم خان اربانی کو ایک فوج لے کربھیجا جنگ ہوئی بیکانیر والے بھاگ گئے تھے اورولہر کا قلعہ نواب صاحب کے پاس مستقل آگیا۔آپ نے اس قلعہ کا نام سردار گڑھ رکھا اور اپنی ریاست میں شامل کرلیا۔یہاں ایک کنواں کھدوایا پھر دوسرا مگر دونوں کا پانی کھاری نکلا یہ قلعہ بہکانیر سرحد سے صرف ڈھائی میل کے فاصلے پر ہے۔۱۸۶۶ء میں وہاں تین توپیں نصب تھیں جن میں ایک پیتل کی تختی پر لکھا تھا۔ ؛مہراجہ دھیرج ،مہراجہ سری زور اور سنگ میو،سمبت ۱۷۹۷
اس کتبہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ توپ بیکا نیر کی تھایہ بہاولپور لے آئی گئی تھی۔
12۔قلعہ مچھکی۔ یہ قلعہ لال خان صوبہ دار نے۱۱۹۱ھ/۱۷۷۷ء میں ایک قدیم ٹیلے پر تعمیر کیا تھا لال خان صوبہ دار ،اختیار خان مندھانی کا بڑا بیٹا تھا۔یہ اختیار خان وہ تھا جس نے گڑھی اختیار خان آبادکی تھی ۔اس قلعہ قدیم کے اندورنی و بیرونی حصے سب کچے تھے یہ قلعہ دراوڑسے تقریباً تیس میل کے فاصلے پر بہ سمت مشرق واقع تھا مگر جلد ہی پانی کی کم یابی کی وجہ سے منہدم ہوگیا اب وہاں سوائے مٹی کی ڈھیروں کے کچھ بھی نہیں ہے۔ 
13۔ قلعہ قائم پور۔ خیرپور ٹاویں والی سے دس میل شمال کی جانب واقع ہے اس کو قائم خان عربانی نے ۱۷۴۷ء میں آباد کیا تھا اس زمانے میں دریائے ستلج کا رخ یہ نہ تھا بلکہ قائم پور کے ساتھ شمالی جانب تھا۔جب یہ آباد ہوا تو اس کا نام قائم پور نہ تھا بلکہ اس نام گوٹھ قائم خان تھا جہاں اس وقت شہر آباد ہے اس کے مشرقی سمت ایک قلعہ تعمیر کرایا گیا تھا اس قلعہ کی فصیل پختہ اور بلند تھی دمدمے بہت مضبوط تھے چاروں جانب اونچے برج تھے جہاں سپاہی پہرہ دیتے تھے یہ شہر کسی زمانے میں ریاست بہاولپور کا اہم مقام تھا اب قلعہ منہدم ہو چکا ہے اور مختصر آثار باقی رہ گئے تھے۔
14۔قلعہ مرید والا۔ اختیار خان کے دوسرے بیٹے حاجی خان نے بھی ۱۱۹۱ھ/۱۷۷۷ء میں ایک قلعہ مرید والا کے مقام پر تعمیر کرایا تھا یہ قلعہ بھی قلعہ دراوڑ سے چولستان میں بہ سمت جنوب۲۵میل کے فاصلے پر آباد تھا یہ قلعہ تمام تر کچی مٹی کا بناہوا تھا کہا جاتا ہے کہ یہ قلعہ زیادہ عرصہ آباد نہ رہ سکا اور پھر ۱۸۰۵ء میں دریائے ہاکڑہ میں سیلاب آیا تو سیلاب میں گھر گیا اور جلد ہی بالکل نابود ہوگیا اب سوائے مٹی کے ڈھیریوں کے کچھ نظر نہیں آتا۔
15۔ قلعہ دراوڑ۔ یہ چولستان میں ۱۸۳۴ء میں راجہ دیور راول نے تعمیر کرایا تھا یہ انتہائی قدیم قلعہ ہے دریائے ہاکڑہ کے مغربی کنارے پر آباد تھا ۔قلعہ دیورال کہلاتا تھا ۔بگڑکر قلعہ دراوڑ بن گیا۔۱۷۳۵ء تک یہ قلعہ دیوراول کے جانشینوں کی ملکیت رہا پھر ۲۰ذیقعد۱۱۴۶ھ /۱۷۳۳ ء میں نواب صادق محمد خان عباسی اول نے رائے راول سنگھ سے فتح کرلیا رائے راول سنگھ کا شجرہ پچیس اوپر راجہ دیور اول اس قلعہ کے بانی تک پہنچتا ہے قلعہ دراوڑ کے نزیک جیاں ریت کے زبردست ٹیلے تھے نواب محمد بہاول خان سوم نے ۱۲۴۱ھ /۱۸۲۵ء میں عالی شان مسجد تعمیر کرائی تھی یہ مسجد دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے مگر ویران ریتی ہے اس کی ویرانی دیکھ کر دکھ ہوتا ہے دراصل اس جگہ ایک چھوٹی سی مسجد تھی جو غالباً پہلی صدی ہجری میں آنے والے مسلمان صحابیوںؒ یا تاجرو یا کسی بزرگ نے بنوائی ہوگی۔ ممکن ہے کہ ان میں سے کوئی صحابہ کرام یا تابین کرام بھی ہوں اس کے قریب ہی نواب خاندان کا شاہی قبرستان ہے جہاں پہلے نواب صاحب کے علاوہ باقی تمام حکمران دفن ہیں۔
16۔ چانڈہ کھانڈہ۔ قدیم زمانے میں یہ قلعہ دراوڑ سے دو میل کے فاصلے پر ایک ٹیلے پر آباد تھا تاریخ سے صرف یہ معلوم ہو تا ہے کہ یہ قلعہ سکندر اعظم کے حملے کے وقت موجود تھا۔سندھ جاتے ہوئے سکندراعظم نے چانڈہ کھانڈہ کے مقام پر اس زمانے میں دریا سند ھ یا دریائے ہاکڑہ کی مشہور بندر گاہ تھی میں قیام کیا اور یہیں سے دریا عبور کیا تھا۔ کرنل ٹاڈ نے وقائع بیکا نیر پر لکھا ہے کہ سکندر سندھ جاتے وقت دراوڑ کے قریب ایک ایسے مقام پر پہنچا جو بھٹیز سے۲۵میل جنوب میں تھا یہ بھٹیز اس وقت دھا وندوسر بھی کہلاتا تھا یہاں ایک محل بنام رنگ محل تھا جہا ں حکمران رہتا تھا اب تو اس قلعہ کے کھنڈرات بھی موجود نہیں ہیں قیاس ہے کہ اس قلعہ کے ملبہ اور مصالحہ قلعہ دراوڑ کی تعمیر اور مرمتیں ہوتی رہیں۔
17۔قلعہ خان گڑھ۔ نواب محمد بہاول خان دوم نے دفاعی ضروریات کی پیش نظر جو قلعے تعمیر کرائے تھے یہ قلعہ ان میں سے ایک تھا چولستان کے درمیانی قلعہ دراوڑ سے۳۲ میل جنوب مغرب میں ایک انتہا ئی اہم قلعہ ۱۱۹۸ء/۱۷۸۳ء میں تعمیر کرلیا جس کا نام خان گڑھ رکھا یہ قلعہ کچی اینٹوں سے تعمیر کرایا گیا مگر فصیل کے کچھ حصے اور اس کا داخلی دروازہ پختہ تھا اس کے میناروں اور برجیوں میں بھی عمدہ مصالحہ اور پختہ بڑی سائز کی اینٹیں استعمال کی گئی تھیں ۔ اس قلعہ کی تمام دیواریں اور فصیل وغیرہ مسمار ہوچکی ہیں ۔
18۔؛ قلعہ رکن پور۔ اس کے آثاردین گڑھ سے ۳۲ میل کے فاصلے پر مغرب کی جانب موجود ہیں ۔ محمد معروف خان کہرانی نے ۱۱۹۰ھ/۱۷۷۶ء میں تعمیر کرایا تھا یہ قلعہ تمام تر مٹی سے تعمیر کیا گیا تھا۔ اس قلعہ کے اندر رہائشی مکانات تھے میناریں تھیں اب ان کے آثار رہ گئے ہیں۔یہ قلعہ غوث پور بھی کہلاتا ہے۔
19۔ قلعہ کنڈیرا ۔ کسی قدیمی ٹیلے پر ۱۱۷۸ھ /۱۷۴۶ء میں بھکر خان جانی کے بیٹے فضل خان پیر جانی نے موجودہ منٹھار تحصیل صادق آباد سے تھوڑی دور کے فاصلے پر یہ قلعہ تعمیر کرایا تھا اب تو اس قلعہ کے باقیات بھی غائب ہوگئے ہیں۔صرف کھنڈرات باقی ہیں اس قلعہ کی چار دیواری پختہ تھی فصیل اور برجیوں میں پختہ اینٹیں استعمال کی گئی تھیں۔ اس کے چار بڑے بلند منیار تھے، فصیل کے درمیان میں ایک دروازہ تھا ۔۱۸۰۵ء میں نواب محمد بہاول خان دوم نے س قلعہ کو کسی سیاسی نقطہ نظر کے تحت مسمار کردیا تھا اس قلعہ کے اردگرد چولستان کے مہر قبائل آباد ہیں اب یہاں ٹیلوں کے سوا کچھ باقی نہیں ہے۔
20۔قلعہ سیوراہی۔ قصبہ سنجر پور تحصیل صادق آباد قومی شاہراہ پر واقعہ اس سے مشرقی سمت ایک میل کے فاصلے پر نہر کے کنارے سیوراہی آباد ہے یہ ان چھ قلعوں میں سے ایک ہے کو رائے سہاسی نے تعمیر کئے تھے رائے سہاسی کا عہد(ﷺ) چھٹی صدی عیسوی کا ہے اس کی بابت صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ شاہ حسین ارغون نے ۱۵۴۵ میں اسے تباہ کردیا تھا جنرل کنگھم کے بموجب یہ وہی مقام تھا کہ جسے سکندر اعظم کے عہد کے مورخین نے سو گڈیا کو محل قرار دیا تھا شمالی سندھ کے مشہور رومان کے ہیرو منیندار جو مومل کے عشق میں پھنس گیا تھا مندوہا کے پتن کے حاکم حمیر سومرا کا ہم عصر بیان کیا جاتا ہے جو اس زمانے میں اس علاقے کا درالخلافہ تھا اس قلعہ کے ڈھیروں میں کبھی کھدائی کا کام نہیں ہو ا اس کے باوجود متعددبار وہاں بڑے بڑے توپ کے گولے برآمد ہوئے ہیں۔
21۔قلعہ صاحب گڑھ۔ یہ قلعہ ۱۱۱ھ /۱۷۷۷ء میں فضل علی خان ہلانی نے تعمیر کرایا تھا اور وہی فضل ہلانی رحیمیار خان کا بانی تھا اس قلعہ کے درودیوار کچی مٹی کے بنے ہوئے تھے مگر بیرونی دیواروں کے ساتھ پختہ اینٹیں لگادی گئی تھی اس قلعہ کو نواب بہاول خان دوم نے جو فضل علی خان ہلانی کے داماد صاحب تھے ۱۲۲۰ھ/۱۸۰۵ء میں قلعہ مسمار کرادیا تھا قلعہ کے اندر کوڑے خان ولد خدایار خان کی رہائش تھی وہ بھی مسمار کرادی گئی تھی قلعہ کے باہرایک تالاب میں بارش کا پانی جمع ہوتا تھا جو انسانوں اور جانوروں کے کام آتا تھا یہ قلعہ صاحب گڑھ کے کھنڈرات احیم یار خان سے ۶۷ میل کے فاصلے پر جنوب میں چولستان میں موجود ہیں۔
22۔قلعہ ونجھروٹ۔ یہ قلعہ راجہ ونجھا نے تعمیر کرایا تھا ۔تاریخ مراد کیمطابق ۵۷۴ھ/۱۱۷۸ھ میں اس قلعہ کو شہاب الدین غوری نے مسمار کرادیا تھا لیکن کرنل ٹاڈ کیمطابق یہ قلعہ ۷۵۷ھ میں راجہ کہڑ کے لڑکے تنو نے تعمیر کرایا تھا۔راجہ تنو کو دیوی بیجا سانی نے شہادت دی تھی کہ اس مقام پر خزانہ دفن ہے تنو نے وہاں سے خزانہ حاصل کیا اور یہ قلعہ اس مقام پر تعمیر کرایا اور اس دیوی کے نام پر بیجا نوٹ رکھا جو بعد میں بجنوٹ بن گیا۔یہ قلعہ مدتوں تک کھنڈرات کی حالت میں پڑا رہا پھر۱۱۷۱ھ/۱۷۵۷ء میں موریا داد پوترہ نے اس کی ازسر نوتعمیر کرائی ۔۱۷۵۹ھ میں علی مراد خان نے یہ قلعہ لے کر مرمت کرائی دوسوسال تک یہ قلعہ مرمت کے بغیر پڑا رہا آخر کار منہدم ہوکر تباہ ہوگیا اب وہاں مٹی کے ڈھیر پڑے ہیں۔
23۔ قلعہ دھویں۔ یہ قلعہ دراوڑ سے چولستان میں۳۲ میل کے فاصلہ پر تعمیر کیا گیا تھا یہ ایک دفاعی قلعہ تھا جو کبیر خان اچرانی کے بیٹے فاضل خان نے ۱۱۸۶ھ/۱۷۷۶ء میں تعمیر کیا تھا یہ قلعہ بالکل کچی مٹی کا تھا اس قلعہ کی فصیل کچی دھوڑ کی بنائی گئی تھی تاکہ مورچوں کے گولوں سے فصیل برباد نہ ہوسکے۔انیسویں صدی کے شروع میں یہ قلعہ منہدم ہوچکا تھا اب تو اس کے آثار بھی موجود نہیں ہیں۔

24قلعہ دین گڑھ۔ کسی زمانہ میں یہ مقام ترہاڑ کہلاتا تھا اب دین گڑھ کہلاتا ہے یہ قلعہ بہادر خان ہلانی نے ۱۱۷۱ھ/۱۷۵۷ء میں تعمیر کیا تھا صاد ق آباد تحصیل میں چولستان کی جانب۲۳ میل واقع تھا۔ پتن منارا سے راستہ جاتا تھا دراصل جیسلمیر کا ایک ہندوں راجہ للو نے اس مقام پرقلعہ ترہاڑ بنایا تھا دوسری روائت کے بموجب محمد معروف خان کہرانی کے بیٹے ابراہیم خان نے ۱۱۷۰ھ/۱۷۶۵ء میں اس کی تعمیر شروع کی اور اس کے چچا زاد خدا بخش ولد نورمحمد خان نے اس کو مکمل کیا داخلی دروازے کے اوپر لکڑی پر کلمہ طیبہ کے علاوہ کچھ اور بھی تحریر کیا تھا۔ قلعہ کی فصیل مکانات سب منہدم ہو چکے ہیں مگر اس کی بلند فصیل کے کچھ حصے عمر رفتہ کو آواز دیتے رہتے ہیں۔

25۔قلعہ اوچ ۔ یہ علاقہ قبل مسیح میں بھی آباد تھا یہاں راجہ ہود حکومت کرتا تھا جس کے کام پر یہ جگہ مشہور ہوئی پھر بگڑ کر یہ جگہ ہوچ کہلانے لگی اور اب اوچ کہلاتی ہے کہتے ہیں کہ یہ شہر۷۷ء میں تباہ ہوگیاتھا سکندر نے اپنے حملوں کے دوران اس کو فتح کیا تھا،چچ نامہ میں ہنری ایلیٹ کے بموجب اس کا نام اسکلندہ تھا سکندر کے وقت سے جب تک انگریزوں نے اس ملک میں قدم رکھے ہوئے کوئی نہ کوئی بادشاہ یہاں حملہ کرتا رہا اور اس شہر کو تباہ کرتا رہا اوچ کے مخدوم محمد حامد گنج بخش سے نواب صاحب کی ان بن ہوگئی اور انہوں نے بغاوت کردی نواب محمد بہاول خان دوم نے۱۲۱۹ھ/۱۸۰۴ء میں مخدوم صاحب کو گرفتار کرلیا اور اوچ فتح ہوگیا اور قدیمی قلعہ مسمار کردیا گیا اب وہاں سوائے ٹیلہ کے کچھ باقی نہیں ہے۔
26۔قلعہ تاج گڑھ۔ تاج گڑھ کا ایک قلعہ رحیم یار خان سے ۴ میل کے فاصلہ پر واقع تھا کسی زمانے میں اس کا نام ہرار تھا دسویں صدی ہجری میں یہاں ایک رانی ہران حکومت کرتی تھی جو جیسلمیر کے راجہ کی بیٹی تھی اس نے اپنے نام پر اس کی تعمیر کی تھی ۔ ایک مسلمان بزرگ سعید احمد بلوری نے رانی کو مسلمان کیا۔ قلعہ تاج گڑھ جو قدیمی ہراار تھا مدت تک سمرا خاندان کے راجاؤں کے قبضہ میں رہا پھر جیسلمیر کے راجاؤں کے قبضہ میں آگیا پھر بھاٹیہ خاندان اس میں فرد کش رہے۔۱۸ویں صدی عیسویں کے آخر فصل علی نے اس قلعہ کو مسمار کرادیا اور ۱۷۸۰ء میں اپنے بھائی کے نام تاج محمد خان کے نام پر اس مقام کا نام تاج گڑھ رکھ دیا حالاں کہ تاج گڑھ دراصل داؤدپوتروں نے بنایا اور بسایا تھا مگر گزیٹر بہاولپور۱۹۰۴ کے مطابق یہاں اب کوئی پوترہ نہیں رہتاہے۔
27۔قلعہ اسلام گڑھ۔ یہ قلعہ بھی بہت قدیمی قلعوں میں سے ہے کبھی اس قلعہ کا نام بھیم تھا جو راجہ بھیم سنگھ نے ۱۶۶۵ سمبت تعمیر کرایا تھاجب کہ اس قلعہ کے دروازے پر لکھا ہو اتھا۔( سمبت ۱۶۶۵ء اوج دادی ۲مہراج اول سری بھیم سنگھ جی مہراج)۔وائس آف چولستان فاؤنڈیشن رجسٹرڈ چولستان کی آواز بن کر تمام تاریخی قلعوں کی بحالی کی آواز اٹھارہا ہے۔
۱۱۸۰ھ/۱۷۶۶ء میں اختیار خان مندھانی جو گڑی اختیار کا سردار تھا سھوکہ سے اس قلعہ پر قابض ہوگیا اس کا واقعہ اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ راجہ موج راج جو اول سنگھ آف بیکا نیر کا بیٹا تھا نے دو محافظ جلال خان اور شجاعت خان اس قلعہ کی نگہداشت پر ملازم رکھے ہوئے تھے اور یہ ملازم بہت ہی وفا دار تھے یہ اکثر سودا سلف لینے قریبی شہر گڑی اختیار خان آتے جاتے تھے ۔اختیار خان نے ان ک دولت اور سونے کے کنگنوں کا لالچ دے کر سازش کرلی اور قلعہ پرقبضہ کرلیا اور قبضہ کے بعد ان غریبوں کو کچھ نہ دیا یہ قلعہ بھاگلہ کے مقام سے ۲۸میل کے فاصلے پر موجود ہے اختیار خان مندھانی نے قلعہ پر قبضہ کرلینے کے بعد قلعہ کا نام بھیم در سے تبدیل کرکے اسلام گڑھ رکھ دیا۔دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قلعہ کسی زمانے میں واقعی بہت پر شکوہ ہوگا اس کے اوپر کے برج جو اب شکستہ ہوچکے ہیں ،کبھی ان برجوں میں محافظ پہرہ دیا کرتے تھے قلعہ کے اندر پختہ کنواں تھا قلعہ کے اندر ایک مسجد بھی تھی جو اختیار خان نے قبضہ کرلینے کے بعد تعمیر کرائی تھی۔ قلعہ کے باہر شمال میں منگوال ڈھیڈ نامی بستی ہے اور ویران کھنڈرات ہیں اب تو رحیمیار خان سے پختہ سڑک باغ و بہار سے ہوتی ہوئی بھاگلہ تک جاتی ہے آگے تھوڑی دور پر قلعہ واقعہ ہے۔
28.قلعہ مؤ مبارک۔ رحیمیارخان سے دس کلومیٹر کے فاصلے پر مؤ مبارک کا قدیم قلعہ موجود ہے۔ شمال مغرب میں اب بھی کئی جگہ پر فصیل کے حصے نمایا ں نظر آتے ہیں اور پچاس ساٹھ فٹ مٹی کے ڈھیر کو اپنے دامن میں سمیٹے پڑے ہیں۔یہ قلعہ راجہ ساہنس نے اپنی ماں کی رہائش کیلئے بنوایا تھا۔اس عہد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ہم عصر خیال کیا جاتا ہے۔ اس نے اپنی ماں کے نام پر اس جگہ کا نام ماؤ رکھا تھا ۔کبھی قلعہ کے بیس برج تھے۔اور چار دمدے تھے،فصیل پختہ اور مضبوط تھی۔ مدتوں بعد اسہی خاندان کے ایک راجہ کیلاش نے اس کو مرمت کرایا تھا ۔سلطان محمود غزنوی نے اپنے حملوں کے دوران اس قلعہ کو فتح لرلیا تھا اور اس کو مرمت کراویا تھا۔ سلطان محمود غزنوی نے اپنے حملوں کے دوران اس قلعہ کو فتع کرلیا تھا اور اس کو منہدم کرادیا تھا۔۱۵۶۹ء میں سلطان حسین ارغون نے پھر اس قلعہ کو فتع کرلیا تھا۔چھٹی ہجری میں حضرت شیخ حمید الدین حاکم ؒ جو حضرت شاہ رکن عالم ؒ کے خلیفہ خاص تھے۔ اس جگہ کو اپنی رہائش کیلئے منتخب کرلیا تھا اور یہاں کے ہزاروں خاندانوں کو مسلمان کیا،انتقال کے بعد آپ کے جسد خاکی کو یہیں سپرد کردیا گیا۔ اب قلعہ کے اوپر ایک چبوترے پر کھلے آسمان تلے آپ خوابیدہ ہیں اور روز آسمان آپ پر شبنم افشانی کرتا ہے۔
29۔قلعہ لیارا۔ ؛۱۱۹۵ھ/۱۷۸۰ء میں اس قلعہ کی تعمیر سبزل نے کرائی تھی ۔یہ وہی خان تھے جنہوں نے کوٹ سبزل نام کا شہر موجودہ صادق آباد بسایا تھا ایک اور روایت کے بموجب اس قلعہ کی تعمیر سبزل خان کہرانی نے ۱۱۷۰ھ/۱۷۵۶ء میں کرائی تھی اس قلعہ کے باقیات کوٹ سبزل سے چولستان کی جانب ۲۴ میل پر موجود ہیں یہ قلہ بنیادی طور پر کچا تھا اور فصیل کے کچھ حصوں اور قلعہ کے دروازہ پختہ اینٹوں سے بنائے گئے تھے۔ یہ قلعہ ایک قدیمی ٹیلہ پر تعمیر کیا گیا تھا مگر اس کے با وجود ۱۲۲۰ھ/۱۸۰۹ء میں دریائے سندھ یا دریائے ہاکڑہ کے سیلاب میں یہ بری طرح متاثر ہوا ہے اور آہستہ آہستہ مسمار ہوتا چلا گیا۔۔۔ختم شد۔
















No comments:

Post a Comment